پاکستان کی نو منتخب سولہویں قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس جمعرات کی صبح دس بجے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی باضابطہ منظوری کے بغیر طلب کیا جائے گا۔
سپیکر راجہ پرویز اشرف نے صدر کی مزید مشاورت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے جمعرات کی صبح 10 بجے اجلاس کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
توقع ہے کہ نومنتخب ارکان اس اجلاس کے دوران اپنے پارلیمانی فرائض کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے حلف اٹھائیں گے۔
حالیہ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا بلانا جمہوری عمل میں ایک اہم قدم ہے۔ اجلاس میں نومنتخب اراکین کو جمع ہوتے، حلف اٹھانے اور قانون سازی کے فرائض شروع کرنے کا موقع ملے گا۔ توقع ہے کہ سیشن کا مخصوص ایجنڈا اور تفصیلات تاریخ کے قریب جاری کی جائیں گی۔
اس سے قبل، منگل کو وفاقی حکومت اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے درمیان قومی اسمبلی کے اجلاس پر سینگ بند ہو گئے۔ صدر پر تنقید کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے کہا: ’’آرٹیکل 91 میں کہیں نہیں ہے کہ اگر پارلیمنٹ مکمل نہ ہو تو قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا‘‘۔
حکومت نے کہا کہ آرٹیکل 54 کے مطابق صدر کو قومی اسمبلی کا اجلاس روکنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ کوئی عام سیشن نہیں ہے بلکہ غیر معمولی اجلاس آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
مرکز کا مؤقف تھا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ مخصوص نشستیں نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے صدر کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کا کہا تھا۔
آرٹیکل 91 کی شق 2 کے مطابق انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 24 دن کے بعد بلانا لازمی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو ہوگا، چاہے صدر اس تاریخ کو اجلاس نہ بھی بلائیں، وفاقی حکومت نے کہا۔
پیر کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی سمری اعتراضات کے ساتھ واپس کر دی۔ اس کارروائی نے صدر، نگراں حکومت اور سیکرٹریٹ کے درمیان خاص طور پر قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے شیڈول کے حوالے سے کشیدگی کو بڑھا دیا۔
صدر علوی کے اعتراضات کے باوجود سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اس معاملے پر صدر کے موقف سے ہٹنے کا عندیہ دیتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں پہل کی۔