اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کو نشانہ بنانے کی مہم چلانے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ پیشرفت جسٹس ستار کی جانب سے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس عامر فاروق کو ایک خط لکھنے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں ان کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائے جانے والے پروپیگنڈے سے متعلق تھا۔
ذرائع کے مطابق ہائی کورٹ نے خط کو ڈائری نمبر تفویض کرنے کے بعد توہین عدالت کیس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج بنچ کی تشکیل کا امکان ہے۔
جسٹس ستار کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ہائی کورٹ کے جج کے پاس امریکی شہریت ہے۔ تاہم، IHC نے 28 اپریل کو ایک پریس ریلیز میں ان دعوؤں کی تردید کی۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ جسٹس ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی اور شہریت نہیں ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس ستار کے خلاف ’ہتک آمیز اور بے بنیاد‘ مہم چلائی جا رہی ہے۔
جسٹس بابر ستار کی اہلیہ اور بچے پاکستان اور امریکا کے شہری ہیں۔ وہ 2021 تک امریکہ میں مقیم تھے لیکن جسٹس بابر ستار کے آئی ایچ سی کے جج کے طور پر تعینات ہونے کے بعد وہ پاکستان واپس آئے اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں۔
IHC نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ جسٹس ستار کی خفیہ معلومات کو آن لائن پوسٹ اور دوبارہ پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ جج کی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات بھی آن لائن اپ لوڈ کیے گئے تھے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ان کی جائیدادوں کے بارے میں ٹیکس گوشواروں میں فراہم کردہ تفصیلات بھی سوشل میڈیا پر جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کے ساتھ پوسٹ کی جا رہی ہیں۔
ہائی کورٹ کی جانب سے جاری وضاحتی پریس ریلیز کے باوجود سوشل میڈیا پر مہم نہیں رکی ہے۔ لہٰذا ذمہ دار فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جسٹس ستار آئی ایچ سی کے ان چھ ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے عدالتی معاملات میں مداخلت کی شکایت کی ہے۔