وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت سے متعلق تجاویز زیر گردش ہیں، ان تجاویز کو یکسر مسترد نہیں کریں گے۔
تارڑ نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت 18ویں ترمیم کے بعد ربڑ سٹیمپ سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پارلیمانی پارٹی ایسی تجویز لے کر آتی ہے تو یہ اس کا حق ہو گا، انہوں نے مزید کہا کہ ایسی تجاویز پر پہلے بھی بات ہو چکی ہے۔
وزیر نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم نے ججوں کی تقرری کے لیے آئینی ترمیم لانے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کی تقرری کے عمل میں توازن ہونا چاہیے، 18ویں ترمیم نے بھی تقرری کے عمل میں توازن برقرار رکھا تھا۔
تارڑ نے اعلان کیا کہ “ہم اس مسئلے پر اپوزیشن کے ساتھ ضرور بات کریں گے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت قانون کو چیف جسٹس کی مدت ملازمت سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔
“بہت سے ممالک میں ججوں کی تقرری میں عدلیہ کا کردار بہت کم ہے،” انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کسی مخصوص نشست کی حقدار نہیں ہے۔
دوسری جانب حکومت نے ہائی کورٹس میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئینی ترمیم پر بھی کام شروع ہو چکا ہے۔
یہ بات وزیر قانون نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں بتائی۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیر نے کہا کہ حکومت آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کا ارادہ رکھتی ہے جس سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔
حکومتی موقف کے اظہار کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے اجلاس کی کارروائی ملتوی کرنے کی تجویز دی جسے تمام ارکان نے منظور کرلیا۔
بیان کے مطابق اجلاس میں حکومت کی تجویز کردہ ترامیم کے باعث ججوں کی تقرری میں تاخیر نہ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ترمیم سے قبل ہائی کورٹ کے ججز کی تقرریاں موجودہ قانون کے مطابق کی جائیں گی۔